FDXC-75GT™ Digital X-ray - پاکستان میں تحقیق کا فقدان
   
Click any of the below to display
  DICOM PACS Software Free
  Radiology History
  Research Projects
  Electronic Circuit Making
  Download
  Videos
  Videos2
  DDR vs CR
  Links
  Links and resources
  Picture Gallery
  پاکستان میں تحقیق کا فقدان
  Contact



Attention developers! get your free PACS software listed here, please dorp me email with the details at qamar@pamec.co.cc
(Managed by Qamar Zaman since 12/2006) 
Webpage upadated on 21/09/ 2010
 Email your suggestions at qamar@pamec.co.cc
Here is a list of links to various free or trial PACS software packages. I would like to 
thank for preparing the list. Enjoy.


پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کا سبب بنے والی مہلک گیسوں کے اخراج کا ذمہ دار نہیں، تاہم اس عالمی ماحولیاتی مسئلےکےباعث ملکی معیشت کو سنگین خطرات کا سامنا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہےکہ اس صورتحال کے باوجود موسمیاتی تغیرات کےتناظر میں پیدا شدہ اور ممکنہ ماحولیاتی مسائل سے نمٹنے کے لیے ملک میں سائنسی سطح پر تحقیق نہ ہونےکےبرابر ہے۔

پاکستان میں موسمیاتی تغیر ات کےسبب جو شعبےمتاثر ہورہے ہیں۔ ان کے بارے میں سرکاری سطح پر اعتراف کیا گیا ہے کہ زراعت، جنگلات، ماہی گیری اور سب سےزیادہ خطرات آبی وسائل کو درپیش ہیں۔ یہ اعتراف اس سال جنوری کے وسط میں اسلام آباد میں موسمیاتی تغیرات کے بارے میں عالمی سطح پر منعقدہ ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی نے کیا تھا۔

ماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ ماحولیاتی تغیرات کا نشانہ بننے والے جن شعبوں کی نشاندہی کی جاچکی ہے ان کے تدارک کے لیے ملک میں سائنسی بنیادوں پر تحقیق کا فقدان ہے۔ جس کی وجہ سےاندیشہ ہے کہ آئندہ آنے والے برسوں کے دوران پاکستان میں سنگین ماحولیاتی بحران پیدا ہوسکتا ہے۔

پاکستانی معیشت میں زراعت، ماہی گیری اور جنگلات سے پیدا ہونے والی مصنوعات پر ملک کی اکثریتی آبادی کا معاشی انحصار ہے۔ جبکہ ملک کی آبی ضروریات کا بڑا حصہ دریائے سندہ سے پورا ہوتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تغیرات کا شکار دریائے سندھ بھی ہوسکتا ہے جس کا سبب گلیشیروں کے پگھلنے کے باعث پہلے سیلاب اور پھر دریا میں پانی خطرناک کم ہو کر ملکی آبادی اور معیشت، دونوں کو تباہی سے دوچار کرسکتا ہے۔

پاکستان میں تحقیق صرف پی ایچ ڈی ڈگری کےحصول اور سائنسی مقالوں کی اشاعت تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ ملکی خدمت اس وقت تک ممکن نہیں جب تک تحقیق اور معاشرتی مسائل کو باہم مربوط کر کےمعاشرے کو یہ باور نہ کروادیا جائے کہ اگر نجی شعبے نےتحقیق میں سرمایہ کاری کی تو اس سےبراہ راست فائدہ معاشرے کو ہوسکتا ہے۔ اس وقت تحقیق اور معاشرے کے درمیان یہ ربط مفقود ہے۔ جس کی وجہ سےتحقیق کےشعبے میں نجی شعبےکی سرمایہ کاری نہ ہونےکےبرابر ہے

ماہر ماحولیات رفیع الحق


جامعہ کراچی میں برسوں تدریس سےوابستہ رہنے والے ماہرِ ماحولیات رفیع الحق کا کہنا ہےکہ ’اب تک ہم اس بات کا اِدراک نہیں کر پائے ہیں کہ معاشی اور ماحولیاتی مسائل کے خاتمے کے لیےسائنسی بنیادوں پر ایسی تحقیق کی ضرورت ہے، جس سےمعاشرے کو درپیش مسائل کا حل نکل سکتا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں تحقیق صرف پی ایچ ڈی ڈگری کےحصول اور سائنسی مقالوں کی اشاعت تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ جس سے محققین کی ذات کو فائدہ ضرور ہوتا ہے لیکن ملکی خدمت اس وقت تک ممکن نہیں جب تک تحقیق اور معاشرتی مسائل کو باہم مربوط کر کےمعاشرے کو یہ باور نہ کروادیا جائے کہ اگر نجی شعبے نےتحقیق میں سرمایہ کاری کی تو اس سےبراہ راست فائدہ معاشرے کو ہوسکتا ہے۔ اس وقت تحقیق اور معاشرے کے درمیان یہ ربط مفقود ہے۔ جس کی وجہ سےتحقیق کےشعبے میں نجی شعبےکی سرمایہ کاری نہ ہونےکےبرابر ہے۔‘

ہائر ایجوکیشن کمیشن، پاکستان کےمطابق اس وقت سولہ کروڑ کی آبادی والے پاکستان میں 2008 تک پی ایچ ڈی ڈگری کے حامل محققین کی تعداد صرف پانچ ہزار، گیارہ ہے۔ کمیشن کےایک اعلیٰ افسر کےمطابق ’عددی اعتبار سے پاکستان میں پی ایچ ڈی ڈگری کی سطح پرمحققین کی سطح شرمناک حد تک کم ہے، لیکن اس سے بھی بُری بات یہ ہے کہ مجوعی سطح پر ملک میں سائنسی بنیادوں پر تحقیق بھی بہت محدود ہے۔ اس وقت جو تحقیق ہورہی ہے، اس کا زیادہ تر حصہ نجی شعبےکےتحت کام کرنےوالی چند صنعتوں تک محدود ہے، جس میں تجارتی بنیادوں پر مارکیٹنگ اصولوں پر مبنی تحقیق کا ایک خاص ہدف ہوتا ہے۔ مجموعی ملکی مسائل کے حوالے سے اس وقت ان تمام شعبوں میں تحقیق کی ضرورت ہے جو موسمیاتی تغیرات کا نشانہ بن رہے ہیں۔‘

یاد رہے کہ 1947ء میں قیامِ پاکستان کے وقت، اس وقت کے پاکستان میں موجود جامعات سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے والے محققین کی تعداد صرف دو تھی۔
تحقیق کا دامن روایتی، مگر معاشی اعتبار سے ریڑھ کی ہڈی کےمترادف پیداواری شعبوں میں ہی تنگ نہیں۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی میں بھی ملکی سطح پر تحقیق نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن، پاکستان کےمطابق 05-2004 میں صرف 72 طلبا و طالبات نےکمپیوٹر سائنس اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کےشعبےمیں بطور پی ایچ ڈی طالب علم انرولمنٹ کروایا۔ جس سےاندازہ کیا جاسکتا ہےاعلیٰ سطح پر تحقیق کر کے مسائل کا حل تلاش کرنے کے بجائے پاکستان اس جدید ٹیکنالوجی کے شعبے میں بھی دنیا کے دوسرے ممالک پر انحصار کررہا ہے۔ جس کےسبب تحقیق بھی اب درآمدی کنزیومر پراڈکٹ بن گئی ہے۔

عددی اعتبار سے پاکستان میں پی ایچ ڈی ڈگری کی سطح پرمحققین کی سطح شرمناک حد تک کم ہے، لیکن اس سے بھی بُری بات یہ ہے کہ مجوعی سطح پر ملک میں سائنسی بنیادوں پر تحقیق بھی بہت محدود ہے۔ اس وقت جو تحقیق ہورہی ہے، اس کا زیادہ تر حصہ نجی شعبےکےتحت کام کرنےوالی چند صنعتوں تک محدود ہے، جس میں تجارتی بنیادوں پر مارکیٹنگ اصولوں پر مبنی تحقیق کا ایک خاص ہدف ہوتا ہے۔ مجموعی ملکی مسائل کے حوالے سے اس وقت ان تمام شعبوں میں تحقیق کی ضرورت ہے جو موسمیاتی تغیرات کا نشانہ بن رہے ہیں

پاکستان میں موسمیاتی تغیرات کی ماہر صفیہ شفیق کا کہنا ہےکہ 'ملک کو آئندہ برسوں میں موسمیاتی تغیرات کےباعث سنگین ماحولیاتی مسائل کا سامنا کرنا ہوگا۔ جس کے لیے ضروری ہے کہ حکومت اور نجی شعبہ بڑے پیمانے پر زراعت، سمندری وسائل اور پانی کےشعبےمیں تحقیق پر سرمایہ کاری کرے، مگر افسوس ایسا نہیں ہو رہا۔ اس وقت ملک میں ماحولیاتی مسائل کےحوالے سےکام کرنے والی عالمی اور ملکی سطح کی بعض ایسی این جی اوز بھی موجود ہیں جو تحقیق کی علمبردار ہیں، لیکن خود ان کے پاس پی ایچ ڈی سطح کے ماہرین کی استعداد موجود نہیں۔ ،

وفاقی وزارتِ ماحولیات، پاکستان کےایک اعلیٰ افسر عبدالمناف کا کہنا ہے کہ 'حکومت اس وقت موسمیاتی تغیرات کا سامنا کرنے کے لیے متعدد اقدامات کررہی ہے، جو اقوامِ متحدہ کےرہنما خطوط اور کیے گئے معاہدات کےعین مطابق ہیں۔ ساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ اس خطرے کا سامنا کرنے کے لیے ملک میں جس سطح پر تحقیق ہونی چاہیے، وہ نہیں ہورہی ہے۔،
ماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہےکہ سائنسی تحقیق کے لیے بڑے پیمانے پر فنڈ کی کمی بھی اس فقدان کا سبب ہے۔ اقوامِ متحدہ کےترقیاتی پروگرام یو این ڈی پی، پاکستان سےوابستہ ماہرِ آب ڈاکٹر عبدالمجید کےمطابق 'اگر آبی وسائل اور اس سےمستفید ہونےوالےشعبوں مثلاً زراعت، ماہی گیری وغیرہ پر، توجہ نہ دی گئی تو آنے والے برسوں میں قلتِ آب کےسبب ملکی معیشت ہی نہیں نجی شعبےمیں قائم صنعتوں کو بھی سنگین پیداواری نقصان کا سامنا ہوسکتا ہے۔ جس سے ملک میں غربت کی شرح میں بھی اضافہ ہوگا۔ اس لیےضرورت ہے کہ سائنسی شعبےمیں تحقیق پر سرمایہ کاری کی جائے جس کے لیے فنڈز فراہم کرنا ہوں گے۔،

یاد رہےکہ پاکستان 2009 ءکو بطور'ماحولیاتی سال ، منارہا ہے۔

   
                                                                                                                                      QAMAR ZAMAN © 2006-2010 This website was created for free with Own-Free-Website.com. Would you also like to have your own website?
Sign up for free